مثالی انسان
جیسے ہی چند روز کی چھٹیاں آتی ہیں میرا بیٹا کبھی اپنی نانی کے ہاں کبھی دادی کے ہاں چلا جاتا ہے۔ میں چاہتا ہوں وہ اپنے گھر میں رہے تاکہ اس کی اچھی تربیت ہو۔ میں اس کو مثالی انسان بنانا چاہتا ہوں اور وہ مجھ ہی سے بھاگتا ہے۔ نصیحت پر لوگ ظالم سمجھتے ہیں۔ (عرفان عزیز، حیدرآباد)
مشورہ:مثالی انسان بنانے کے لیے خود بھی مثالی انسان بننا پڑتا ہے، تب نصیحت زیادہ موثر ہوتی ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ بیٹے کے بگڑ جانے سے خوفزدہ ہوں اور بہت زیادہ روک ٹوک کے ساتھ پابندیاں بھی لگاتے ہوں۔ ایسے بچے باپ کی طرف سے نفسیاتی خوف کا شکار ہو جاتے ہیں۔ باپ کے سامنے نہ آنا۔ بولتے ہوئے جھجھکنا اور موقع ملتے ہی گھر سے چلے جانا فرار ہی ہے۔ نانی یا دادی کا گھر اپنے گھر جیسا ہی ہوتا ہے۔ یہاں آپ اس سے ملنے جاسکتے ہیں۔ اس طرح اپنے بزرگوں کے ساتھ بیٹھنے اورباتیں کرنے کا موقع ملے گا۔ وہاں بچے کی تعریفیں کریں۔ خیال رہے کہ سچی تعریف ہو، اس طرح اس کی آپ سے قربت بڑھے گی۔
ہیرو بننے کے چکر میں آگ میں کودگیا
ہمارے گھر کے بالکل قریب کچھ کچے مکان ہیں ان میں ایک رات کسی وجہ سے آگ لگ گئی۔ فوری طور پر آگ بجھانے وای گاڑیاں آگئیں لیکن ہمارے بڑے بھائی نے آگ میں کود کر تین بچوں کی جان بچائی، اس نے اپنی جان کی پروا نہ کی۔ سب اس کو شاباش دینے لگے۔ بات یہ تھی کہ قریب ہی وہ لڑکی بھی کھڑی تھی جس کو وہ پسند کرتا ہے۔ یقیناً اس نے خود کو ہیرو ظاہر کرنے کے لیے ایسا کیا ورنہ اور بھی بہت سے لڑکے تھے ان میں کوئی بھی آگ میں نہیں گیا۔ سب نے اپنی حفاظت کی۔ بھائی کا اس طرح خود کو خطرے میں ڈالنا پاگل پن معلوم ہوتا ہے۔ اس کے اپنے ہاتھوں، پیروںمیں بھی جلنے کے زخم ہیں۔ (ن، راولپنڈی)
مشورہ:کہیںآگ لگی ہو اور لوگوں کی جان خطرے میں ہوتو خاموش تماشائی بن کے کھڑے رہنا‘بے حسی اور خودغرضی ہے۔ آگ بجھانے والا عملہ آچکا تھا۔ اگر بھائی نے رضا کارانہ طور پر بچوں کی جان بچائی تو یہ عمل قابل ستائش ہے۔ ہیرو تو وہ ہوگیا۔ جہاں تک لڑکی کے دیکھنے کی بات ہے تو یہ آپ کا گمان بھی ہوسکتا ہے کیونکہ کسی کے دل کی حالت سے آپ واقف نہیں۔ ہاتھ پیروں میں آنے والے زخم کسی کی جان بچانے میں معمولی ہیں۔
بیٹی شادی کے قابل! مگر شوہر دوسری شادی رچا رہے
میری شادی کو اکیس سال ہوچکے ہیں۔ چھوٹی بیٹی بھی جوان اور شادی کے قابل ہے۔ اس سے بڑی دو بیٹیاں اور ہیں۔ اس عمر میں آکر شوہر بیٹے کی خواہش میں دوسری شادی کررہے ہیں۔ ان حالات میں میرا کیا ردعمل ہونا چاہیے۔ سمجھوتہ کروں یا کوئی قدم اٹھائوں۔ (ث، لاہور)
مشورہ:یہ معلوم ہو جاتا کہ شادی کے بعد سے اب تک آپ کے اور شوہر کے تعلقات کیسے رہے تو ان کی شخصیت کو سمجھنا آسان ہوتا۔ کیا وہ شروع سے دوسری شادی کا ذکر کرتے تھے اور ان کو بیٹے کی خواہش تھی۔ اس کے علاوہ ان میں غصہ اور رویے میں تیزی کے علاوہ اور بھی تکلیف دہ عادتیں تھیں جو برداشت کرنی مشکل ہوتیں۔ ایسا تھا تو ان کی دوسری شادی کو قبول کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوناچاہیے اور اگر ان کے رویے میں اچانک تبدیلی آگئی ہے وہ بڑی بڑی باتیں کرنے لگے۔ غصہ بڑھ گیا، خود غرضی اور بے حسی نظر آنے لگی۔ آپ کے علاوہ اور لوگوں سے بھی تعلقات بگڑ رہے ہیں، تب یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ وہ نفسیاتی مریض ہوگئے ہیں۔ بیٹے کی خواہش اتنی دیر سے جاگی اور دوسری شادی کے بعد بیٹا ہونے کایقین بھی نہیں ہوتا۔ وہ تین بیٹیوں کے باپ ہیں، ان کی ذمہ داریاں بھی ہیں لہٰذا ان کی ذہنی صحت پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
مجھے سکون نہیںملتا!
گھر کا کوئی فرد باہر جانے کی بات کرے تو میرے دل کا حال برا ہو جاتا ہے۔ ایسے ایسے وسوسے آتے ہیں کہ مستقل ٹہلتی رہتی ہوں کوئی کام نہیں کیا جاتا، کسی سے بات بھی نہیں ہوتی۔ پٹاخے کی آواز بھی پستول کی آواز لگتی ہے۔ گھر سے جانے والے جب تک واپس نہیں آجاتے، مجھے سکون نہیں ملتا جیسے کہ یہاں حالات ہیں ان میں خوف ہوتا ہے جس سے بات کرو وہ فکرمند ہے۔ گھر میں سب کہتے ہیں آپ فکر زیادہ کرتی ہیں۔ میں تو کسی کو بتاتی نہیں کہ میرے دماغ میں کیا کیا باتیں آتی ہیں۔ خون آلود لاشیں، گرے ہوئے مکان، پھٹتی ہوئی زمین اور بھی بہت کچھ۔ اگر کوئی مجھے نفسیاتی مریضہ کہے تو بھی میں نہیں مانوں گی۔ مجھے ہر بات کا ہوش ہے۔ سب کی مانتی ہوں۔ گھر کے کاموں میں بھی دلچسپی ہے۔ تقریبات میں آتی جاتی ہوں۔ (غ، کراچی)
مشورہ:بہت سی باتیں ٹھیک ہونے کے باوجود آپ اپنے دل کے برے حال سے توپریشان ہیں۔ وسوسوں کی اذیت سہتی ہیں وہ بھی گھنٹوں تک۔ دماغ میں آنے والے خیالات آپ کوپرسکون نیند نہیں سونے دیتے ہوں گے۔ موجود ہ دور میں شاید ہی ایسا کوئی ہو جو نفسیاتی مسائل کاکبھی شکار نہ ہوا ہو۔ ان مسائل کو بڑھنے سے پہلے ابتداء میں ہی حل کرلینا چاہیے۔ وسوسے آنے، خطر ناک خیالات کا قبضہ اور بے چینی، بے سکونی، اضطراب یہ سب نفسیاتی امراض کی علامات ہیں۔ آپ مانیں یا نہ مانیں ذہنی صحت متاثر ہے۔ اس سلسلے میں بہتری کے لیے مثبت سوچ، مضبوط قوتِ ارادی اور حقائق کی آگہی کی مدد سے اپنے اندر بہتری لائیں۔ سوچیں اب تک جتنے بھی وسوسے آئے ان میں سے کتنے ٹھیک تھے۔ کون سا خیال حقیقت پر مبنی تھا۔ یقیناً جواب انکار میں ہوگا۔ لہٰذا آئندہ ان بے حقیقت خیالات کو دماغ میں گھسنے نہ دیا جائے۔ پہلے جو کام اچھے لگتے تھے جو مصروفیات پسند تھیں دوبارہ ان میں دلچسپی لیں۔ ایسے ٹی وی پروگرام دیکھیں جن سے ذہنی بوجھ میں کمی ہو۔ کبھی معلوماتی پروگرام بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ وقت کا بہترین استعمالاپنے دین کامطالعہ ہے۔ اس طرح انسان اندر سے ذہنی، نفسیاتی اور روحانی طور پر مضبوط ہوتا ہے۔ اس وقت منفی خیالوں کی جگہ مثبت خیالات جنم لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی شخصیت مستحکم ہونے لگتی ہے۔
اپنی کزن سے نہ ملیں!
میری عمر بیس سال ہے۔ ایف ایس سی پری میڈیکل سال دوم کا طالب علم ہوں۔ پڑھنا چاہتا ہوں لیکن پڑھ نہیں سکتا۔ پہلے سال میں نمبر کم آئے ہیں اس لیے میڈیکل کالج میں داخلہ ملنا مشکل ہوگا۔ ایک سبب اور بھی ہے وہ یہ کہ میری کزن کی پانچ بیٹیاں ہیں کوئی بیٹا نہیں۔ انہوں نے میری اجازت سے مجھے بھائی کہنا شروع کردیا ہے۔ میں بھی کوشش کرتا ہوں کہ ان کو بھائی کی محبت دوں پھر ڈربھی جاتا ہوں کہ رشتہ دار یا گھر والوں کو میرے حوالے سے غلط فہمی نہ ہو جائے۔ انہی دنوں میری خالہ کا بھی انتقال ہوگیا ہے وہ مجھ سے بہت محبت کرتی تھیں۔ کتاب کھولتا ہوں اور بجائے پڑھنے کے یہ ساری باتیں دماغ میں گھومنے لگتی ہیں۔ ( ت، کہوٹہ)
مشورہ:جو طالب علم پڑھنا چاہتا ہے وہ کسی نہ کسی طرح پڑھ لیتا ہے۔ نمبر کم آنے کا مطلب ہے توجہ سے نہیںپڑھا۔ میڈیکل کالج میں داخلہ نہ ملا تو کسی دوسرے کالج میں مل جائے گا۔ قدرت نے آپ کوبے شمار صلاحیتیں بخشی ہیں، ان سے کام لیا تو کسی نہ کسی اچھے پیشے میں مہارت حاصل کرلیں گے۔ کتاب کھولیں جیسے ہی اِدھر اُدھر کے خیالات آئیں انہیں ٹھہرنے نہ دیں۔ خود سے کہیں ان پر بعد میں سوچیں گے۔ فی الحال یہ مضمون پڑھنا ہے جو نظروں کے سامنے ہے اس کے علاوہ گروپ میں مطالعہ کرنے سے بھی فضول خیالات پر کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ اپنی کزن کی بیٹیوں کو چھوٹی بہنوں جیسا مقام دے سکتے ہیں لیکن ان سے اتنانہ ملیں کہ اپنے کام رہ جائیں اور دوسروں کواعتراض ہو۔
کیڑے مکوڑوں کا ڈر
تین سال بعد میں پاکستان آیا ہوں یہاں آتے ہی اندھیرے سے ڈر لگنے لگا جیسے ہی کسی وجہ سے اندھیرا ہوتا ہے یا کسی ایسی جگہ جانا ہو جہاں روشنی کا صحیح انتظام نہ ہو مجھے لگتا ہے سانپ، بچھو، زہریلے کیڑے نکل آئے ہیں اور پھر زمین پر پیر رکھنے ہوئے ڈر لگتا ہے۔ گھبراہٹ ہوتی ہے۔ اونچے اونچے جوتے پہنتا ہوں جو دوسرے لوگ نہیں پہنتے۔ اس کی وجہ بھی زمین میں نکل آنے والے کیڑے مکوڑوں کا ڈر ہے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میرا یہ ڈر بچپن کا ہے۔ (اسد، میر پور)
چھوٹے بچے بہت زیادہ حرکت میں رہنے کو رتجیح دیتے ہیں یہ بات بعض اوقات بڑوں کی زحمت کاسبب بنتی ہے وہ بچوں کوسلانے یا ایک جگہ بٹھانے کی وجہ سے ان کو مختلف جانوروں وغیرہ سے ڈراتے ہیں۔ کچھ بچے وقت کے ساتھ اس خوف کو بھلا دیتے ہیں اور کچھ کو یہ خوف اس طرح متاثر کرتا ہے کہ بڑے ہونے پر بھی پریشانی اور گھبراہٹ پیدا کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آپ کے ساتھ کوئی ایسی صورتحال پیش آئی ہو جس میں سانپ وغیرہ سے ڈر گئے ہوں۔ آج جبکہ یہ چیزیں درحقیقت اس جگہ موجود نہیں ہوتیں جہاں آپ محسوس کرتے ہیں تو اس ڈر کو نفسیاتی ڈر یا فوبیا کہا جائے گا۔ اس کی بنیاد اور تصویرآپ کے ذہن میں ہے۔ باہر کے ماحول میں نہیں۔ یا تو آپ اسی طرح ڈرتے رہیں یا ہمت کرکے اندھیرے میں ورہ نارمل رویہ اپنائیں جو آپ کے ساتھ دوسرے لوگوں کا ہوتا ہے کیونکہ اب آپ بچے نہیں رہے، لہٰذا بچپن کا خوف بھی ختم ہو جانا چاہیے۔
بھروسہ اٹھ گیا
ہم دو بہنیں ہیں۔ میں بڑی ہوں۔ مجھے اپنی امی سے بے پناہ محبت تھی، لیکن وہ ہم دونوں بہنوں کو چھوڑ کر جاچکی ہیں۔ انہوں نے دوسری شادی کرلی۔ چھوٹی بہن میںان کی جان تھی، پتہ نہیں انہوں نے کس طرح اس کو چھوڑ دیا۔ ایک ماں کس طرح اپنے بچوں کو چھوڑ سکتی ہے۔ اس سوال نے میری زندگی خراب کر رکھی ہے۔ ماں کے نام سے بھروسہ اٹھ گیا ہے۔ وہ اب بھی ہم سے رابطے میں ہیں۔ مگر واپس نہیں آرہیں یا آنا نہیں چاہتیں۔ والد بہت ضعیف ہیں۔ ہم دونوں بہنیں پریشان ہیں کہ ماں سے رابطہ ختم کردیں یاان کو معاف کردیں۔ ایسا کیا کریں کہ زندگی میں سکون آجائے۔ (ندا نعیم، ورجینیا)
ماں اور باپ بھی انسان ہوتے ہیں۔ ان سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ اگر یہ بچوں کی خاطر اپنی خواہشات قربان کردیں تو بچے اس پریشانی سے نہیں گزرتے جو ماں یا باپ کے علیحدہ ہو جانے سے ہوتی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ آپ دونوں تکلیف سے گزر رہی ہیں۔ ان حالات میں سب سے اچھا صبر ہے۔ صبر کرنے والے منفی ردعمل نہیں کرتے۔ یہ لوگوں کو درگزر اور معاف کر دینے کا جذبہ رکھتے ہیں۔ ماں کےواپس آنے کا انتظار نہ کریں اور ان کا فون آئے تو بات کرلیا کریں۔ والد کی خدمت آپ دونوں بہنوں کے نصیب جگا دے گی۔ صبر سے زندگی گزارنے والوں کو ذہنی اور قلبی سکون حاصل ہو جاتاہے۔
اندیشے
میری ماں نے گائوں میں بہت مشکل زندگی گزاری۔ میری شادی شہر میں کی۔ مجھے آج تک اپنی ماں کی زندگی کے دکھ یاد آتے ہیں کہ بیٹی نے بھی ایک لڑکے کو پسند کرلیا اس کا گھر گائوں میں ہے وہ یہاں پڑھنے کے لیے آیا تھا۔ بیٹی اس کی بے حد تعریفیں کرتی ہے اور مجھے یقین دلاتی ہے کہ وہ اچھا لڑکا ہے اس کو خوش رکھے گا۔ اس کا شہر میں رہنے کا ارادہ ہے مگر اس حوالے سے کوئی بات سننا نہیں چاہتی۔ ڈرتی بھی ہوں وہ کوئی غلط قدم نہ اٹھالے۔ (آسیہ،کوئٹہ)
ماضی کے غم اور مستقبل کے اندیشے ہم سب کو ہی گھیرے رکھتے ہیں اس لیے ہم آج کے سکون سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔ ماں ہونے کے سبب بیٹی کو پریشان دیکھنا نہیں چاہتیں لیکن اس کی خوشی کی خاطر لڑکے سے ملیں۔ ارادے جانیں۔ لڑکے اور لڑکی کی باتیں سنیں۔ وہ اچھا لڑکا ہے تو آپ اس کو ناپسند نہیں کریں گی۔
عجیب سی وحشت ہے
ہماری زندگی اچھی گزر رہی تھی کہ اچانک شوہر ملازمت چھوڑ کر آگئے۔ بہت سامان لائے ۔ بچے خوش تھے۔ مگر جب معلوم ہوا کہ والد نے جاب چھوڑ دی ہے تو ہم سب ہی پریشان ہوگئے۔ میں نے محسوس کیا کہ اس بار وہ آئے ہیںتو ان کے چہرے پرعجیب سی وحشت ہے۔ وہ دوبارہ ملک سے باہر جانا نہیں چاہتے حالانکہ سعودی عرب میںان کے بہت رشتے دار ہیں۔ ان کے کزن کا کہنا ہے کہ یہ تم لوگوں کو بہت یاد کرتے تھے۔ نہ نیند آرہی تھی اور نہ بھوک لگتی تھی۔ بس ہر وقت کہتے تھے کہ کوئی میرے بچوں کو ختم کر ڈالے گا۔ ان کو بالکل سکون نہ تھا اس لیے ہم نے بھیج دیا۔ میں سمجھتی ہوں اگر ایسی بات تھی تو ان کو گھر آکر ٹھیک ہو جاناچاہیے۔ (وجیہہ، لاہور)
خراب حالات میںانسان کو اپنے گھر والوں کی فکر زیادہ ہو جاتی ہے۔ خاص طور پر اس وقت جب وہ اپنے گھر سے دور ہو۔ فکر میں بھی لوگ معمول کے مطابق اپنی ذمہ داریاں نبھاتے رہتے ہیں۔ اگر کسی کو اس قدر فکر، پریشانی، اداسی، بے چینی، اضطراب لاحق ہو جائے کہ وہ روز مرہ کے کام نہ کرسکے اس کے علاوہ نیند، بھوک اور مزاج بھی متاثر ہوتو اس کامطلب ہے کہ ذہنی طور پر طبیعت خراب ہے۔ گھر آکر آپ کے شوہر اسی وجہ سے ٹھیک نہ ہوئے کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں۔ ان حالات میں آپ کو ہمت سے کام لینا ہوگا۔ زندگی ہمیشہ ایک جیسی نہیں ہوتی۔ کبھی صبر آزما گھڑیاں بھی آجاتی ہیں۔
دکھ سا ہے
میری عمر 30 سال اور شوہر کی عمر 35سال ہے۔ بہت دکھ سا ہوتا ہے جب سوچتی ہوں کہ دس سال بعد میں بوڑھی ہو جائوں گی اور وہ جوان رہیں گے۔ سب ہی کہتے ہیں عورتیں مردوں کے مقابلے میں جلدی بوڑھی ہو جاتی ہیں۔ سوچتی ہوں کہ جب میں بوڑھی ہوں گی تو اپنے شوہر کونہیں بتائوں گی۔ (عقیلہ،مری)
آپ کا یہ کہنا ٹھیک نہیں کہ دس سال بعدبوڑھی ہو جائیں گی۔ یہ ضرور ہے کہ چالیس سال کی ہوں گی اور اس عمر کی خاتون بڑی عمر کی کہلاتی ہے بوڑھی نہیں۔ جہاں تک شوہر کے جوان رہنے یا ہمیشہ جوان رہنے کی بات ہے تو یہ بھی سو فیصد درست نہیں کیونکہ عمر کے ساتھ ذہنی اور جسمانی صحت میں تبدیلیاں آتی ہیں۔ خواہ وہ مرد یا ہویا عورتیں۔ عمر کے بڑھنے کو ذہن پر مسلط نہیں کرنا چاہیے۔ یہ عمر کاحسن ہوتا ہے۔ وقار اور دلکشمی ہوتی ہے۔ خوش مزاج لوگوں کے چہرے ہر عمر میں دلکش نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ کسی بھی عمر میں اپنے بارے میں منفی الفاظ استعمال نہیں کرنے چاہیے کیونکہ ہم جو کہتے ہیں وہ خود محسوس کرتے ہیں اور دوسروں کو بھی اپنے جملوں کے مطابق نظر آنے لگتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں